لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ایک بے یار و مددگار خاتون کے ساتھ اس کے بچوں کے سامنے زیادتی ملک کی تاریخ کے بدترین جرائم میں سے ایک ہے، ایک ایسا جرم کہ جس نے ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر بھی بڑی توجہ حاصل کی۔ بدقسمتی سےان مقدمات میں مجرم قانون میں سقم کا فائدہ اٹھا کر اور اپنے اثر و رسوخ اور دولت کا استعمال کرتے ہوئے آزاد ہو جاتے ہیں۔ ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
جیسا کہ 13 مئی 1978ء کو معروف پاکستانی فلمی اداکارہ شبنم کو زندگی کی سب سے بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا۔ پانچ مسلح افراد گلبرگ، لاہور میں واقع ان کی رہائش گاہ میں داخل ہوئے اور ایک لاکھ روپے نقدی، زیورات اور دیگر گھریلو اشیاء لوٹنے کے بعد انہوں نے شبنم کے ساتھ گینگ ریپ کیا۔ وہ بھی ان کے شوہر معروف موسیقار روبن گھوش اور واحد بیٹے روبن گھوش کے سامنے۔
مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکامی کے بعد شبنم 1990ء کی دہائی میں پاکستان چھوڑ کر بنگلہ دیش چلی گئیں۔ آج ان کی عمر 78 سال ہے لیکن ان دن کی بھیانک یادوں کی تلخی آج بھی نہیں جاتی ہوگی۔ 160 سے زیادہ فلموں میں کام کرنے والی شبنم کوئی معمولی شخصیت نہیں تھیں لیکن بالآخر وہ بھی مایوس ہو کر پہلے لندن اور پھر ڈھاکا چلی گئیں۔ برطانیہ میں زیر تعلیم ان کے بیٹے کا کہنا تھا کہ انہیں نامعلوم افراد کی جانب سے ڈرایا دھمکایا بھی گیا۔
بہرحال، اس معاملے میں سات افراد فاروق بندیال، وسیم یعقوب بٹ، جمیل احمد، طاہر تنویر، جمشید اکبر ساہی، آغا عقیل احمد اور محمد مظفر پر مقدمہ چلایا گیا۔ یہ سب بااثر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے کہ جن پر خصوصی فوجی عدالت میں مقدمہ چلا۔ اکتوبر 1979ء میں عدالت نے پانچ کو سزائے موت جبکہ آغا عقیل احمد کو 10 سال قید سنائی جبکہ محمد مظفر کو بری کر دیا گیا۔
لیکن نجانے کس دباؤ میں آ کر شبنم اور ان کے خاندان نے مجرموں کو معاف کر دیا جس پر صدر جنرل ضیاء الحق نے سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا۔ ان میں سے ایک مجرم فاروق بندیال کا تعلق خوشاب سے ہے اور وہ ایک مشہور سیاست دان ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے اس نے پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن جیسے ہی یہ خبر منظرِ عام پر آئی، شبنم ریپ کیس کی باتیں بھی سوشل میڈیا پر آ گئیں۔ سخت ردعمل کا سامنا کرنے کے بعد عمران خان نے 31 مئی 2018ء کو انہیں پارٹی سے نکال دیا۔
1983ء میں ملک میں ریپ کے دو ایسے واقعات سامنے آئے کہ جنہوں نے دل دہلا دیے۔ یہ بھی جنرل ضیاء الحق کا زمانہ تھا کہ جس میں بدنام حدود آرڈیننس میں ریپ کو زنا کے ساتھ ملایا گیا تھا، جس کی وجہ سے عورت کو اپنے خلاف کسی جنسی جرم کو ثابت کرنے کے لیے بھی چار مرد گواہ پیش کرنا ضروری تھے۔
2006ء میں پاکستان پینل کوڈ میں نیا اضافہ 254-اے کیا گیا، جس میں عورت پر حملہ یا مجرمانہ طاقت کا استعمال اور اس کو بے لباس کرنے کی سزا بھی سزائے موت یا عمر قید اور جرمانے جتنی سخت رکھی گئی۔ لیکن ان قوانین ان اصلاحات اور ترامیم کا 18 سال کی نابینا لڑکی صفیہ بی بی کو فائدہ نہیں پہنچا کہ جنہیں 1983ء میں زمیندار اور اس کے بیٹے نے ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔
شمال مغربی سرحدی صوبے سے تعلق رکھنے والی صفیہ اس ریپ کے نتیجے میں حاملہ ہو گئی تھیں۔ وہ اپنے خلاف ریپ ثابت نہیں کر پائیں، بلکہ الٹا انہی کو حرام کاری کا مرتکب ضرور قرار دیا گیا اور یوں تین سال قید بامشقت، 15 کوڑوں اور 1 ہزار روپے جرمانے کی سزا بھگتی۔ حمل ٹھہرنے سے زنا تو ثابت ہو گیا، لیکن مجرموں کے ثبوت نہ ملے اور انہیں رہا کر دیا گیا۔ اس پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر کافی احتجاج ہوا، جس کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے صفیہ زنا کے جرم سے بری کر دیا۔
1983ء میں ہی ایک 13 سال کی ایک یتیم بچی جہان مینا کا واقعہ سامنے آیا کہ جنہیں ان کے چچا اور اس کے بیٹے نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ وہ بھی حاملہ ہوئی اور عدالت اپنے ساتھ ریپ ثابت کرنے میں ناکامی کی وجہ سے انہیں زنا کے جرم پر 100 کوڑوں اور ساتھ ہی تین سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی گئی، کیونکہ ان کا حاملہ ہونا شادی کے بغیر کسی کے ساتھ تعلق استوار کرنے کا ثبوت بن گیا تھا۔
27 نومبر 1991ء کو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی قریبی دوست 40سالہ فرحانہ (وینا) حیات کو کراچی میں ان کے گھر میں ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ اس وقت بے نظیر برسرِ اقتدار نہیں تھیں، لیکن وینا حیات کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر وہ بہت رنجیدہ ہوئیں اور اس معاملے کو قومی اسمبلی تک لائیں۔
28نومبر کو گزری تھانے میں درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق وینا نے بتایا کہ ان پر حملہ کیا گیا، ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور پانچ مسلح مجرموں نے 12 گھنٹے تک ان پر تشدد کیا، جنہوں نے اپنے چہرے چھپا رکھے تھے۔ ان کے ملازمین کو بھی باندھا گیا۔
وینا حیات مسلم لیگ کے بزرگ رہنما شوکت حیات کی صاحبزادی اور قبل از تقسیم پنجاب کے وزیر اعلیٰ سر سکندر حیات کی پوتی تھیں۔ انہوں نے عرفان اللہ مروت کو اس ریپ کا مجرم قرار دیا کہ جو اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کے داماد تھے۔
پولیس نے پرچہ تب کاٹا جب اُس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ نے اس معاملے میں مداخلت کی۔ عرفان اللہ مروت اُس وقت کے سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق علی کے مشیر برائے امور داخلہ اور صوبائی اسمبلی کے رکن بھی تھے۔ انہوں نے ان الزامات کو رد کیا اور کہا کہ پیپلز پارٹی سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے خواتین کو استعمال کر رہی ہے اور مجھے بدنام کرنے کے لیے گینگ ریپ کا پورا معاملہ کھڑا کیا گیا ہے۔
شوکت حیات نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی، جس میں عرفان اللہ مروت کو عہدے سے ہٹانے اور ان کی بیٹی پر حملہ کرنے والوں کو عدالت کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا گیا۔ سندھ حکومت نے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی عدالتی ٹریبونل قائم کیا۔
صدر غلام اسحٰق خان نے مبینہ طور پر شوکت حیات کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہیں جلد بازی اختیار نہ کرنے اور صبر کا دامن تھامنے کا کہا گیا۔ بہرحال، 12 دسمبر 1991ء کو کراچی میں تحقیقات کا آغاز ہوا۔ چند مشتبہ افراد کو پولیس پہلے ہی گرفتار کر چکی تھی۔ لیکن وینا اور شوکت حیات نے عرفان اللہ مروت کے ساتھ حکومت کے رویے کو ہمدردانہ قرار دیا اور ٹریبونل کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا۔ ان کے خیال میں جب تک عرفان مروت صوبائی حکومت کا حصہ ہے، ایک منصفانہ کارروائی ممکن ہی نہیں۔ ان کا دیا گیا چار دن کا الٹی میٹم 20 دسمبر کو مکمل ہوا، جس کے بعد شوکت حیات نے قبائلی رہنماؤں کا 17 رکنی جرگہ بلایا کہ جس نے اس حرکت کے مرتکب تمام افراد کو سزائے موت سنائی۔
9 دن بعد 29دسمبر کو ٹریبونل نے بھی اپنا فیصلہ سنا دیا، لیکن یہ فیصلہ بالکل مختلف تھا جس کے مطابق عرفان اللہ مروت کے خلاف وینا کے الزامات کی کوئی شہادت نہیں ملی۔ جہاں تک گینگ ریپ کا معاملہ ہے تو ٹریبونل نے پایا کہ صرف ایک مجرم نے دو مرتبہ ریپ کیا اور اس لیے یہ گینگ ریپ نہیں ہے۔ اس فیصلے پر اخبارات نے بہت شور مچایا اور وینا کے باورچی اور ڈرائیور کی گمشدگی پر بھی سوالات اٹھائے گئے کہ جو اس واقعے کے اہم گواہان تھے۔ عرفان اللہ مروت کے بری ہونے پر وینا حیات پاکستان سے چلی گئیں۔
فروری 2017ء میں عرفان اللہ مروت نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کی کوشش کی تو آصف علی زرداری کی بیٹیوں بختاور اور آصفہ نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ بختاور نے تو یہ تک کہا کہ "ایسی بیمار ذہنیت کے شخص کو تو جیل میں سڑ مرنا چاہیے، بجائے اس کے کہ یہ پیپلز پارٹی کے قریب بھی پھٹکے۔”
2002ء میں پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں 30 سالہ مختاراں بی بی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ پیش آیا۔ مختاراں پر الزام تھا کہ ان کے 12 سالہ بھائی کے ایک اونچی ذات کی عورت کے ساتھ جنسی تعلقات تھے، جس کا بدلہ اس صورت میں لیا گیا۔
اس معاملے پر مقامی اور عالمی میڈیا اداروں نے خوب ہنگامہ اٹھایا۔ یہاں تک کہ یکم ستمبر 2002ء کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملوث 6 افراد، جن میں 4 ریپ کے مجرم بھی شامل تھے، کو سزائے موت سنائی۔ لیکن 2005ء میں لاہور ہائی کورٹ نے عدم ثبوت کی بناء پر 6 میں سے 5 افراد کو بری کر دیا اور چھٹے شخص کی سزائے موت بھی گھٹا کر عمر قید میں تبدیل کر دی۔ مختاراں بی بی نے اپیل کی لیکن سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
جنوری 2005ء میں قدرتی گیس کے ایک سرکاری ادارے کی ملازمہ ڈاکٹر شازیہ خالد کو سوئی، بلوچستان میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ 18 مہینوں سے اس کمپنی کے ہسپتال میں کام کر رہی تھیں، جہاں وہ انتہائی محفوظ سرکاری رہائش گاہ میں رہتی تھیں۔ واقعے کے روز انہیں ایک نقاب پوش شخص نے رسی سے باندھا، دھمکایا، آنکھوں پر پٹی باندھی، مارا پیٹا اور بار بار ریپ کا نشانہ بنایا۔ ان کے شوہر خالد ظفر، جو اُس وقت لیبیا میں تھے، فوراً پاکستان آئے۔ ان کی مدد سے شازیہ نے اس واقعے کو رپورٹ کیا جس کا نتیجہ بلوچستان میں بگٹی قبیلے کی بغاوت کی صورت میں نکلا۔ زبردست مظاہروں کی وجہ سے ملک کے کئی علاقوں کو ہفتوں تک گیس کی فراہمی معطل رہی۔ چند ذرائع کے مطابق اس بغاوت کو کچلنے کے لیے 10 ہزار فوجی اور پولیس اہلکار طلب کیے گئے۔
بالآخرمارچ 2005ء میں شازیہ اور ان کے شوہر پاکستان سے لندن چلے گئے۔ انہوں نے بعد ازاں کینیڈا میں سیاسی پناہ کی درخواست بھی دی لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔
اسی گیس کمپنی کے رہائشی کمپاؤنڈ میں ستمبر 2008ء میں ایک اور ریپ کیس رپورٹ ہوا کہ جس میں فردوس بی بی نامی ایک بیوہ کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ کمپنی کے 9 اہلکاروں اور سکیورٹی گارڈز کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
2007ء میں سندھ کے علاقے میہڑ کے قریب ایک گاؤں میں 13 سالہ لڑکی کائنات سومرو کو اغواء کیا گیا اور چار دن تک اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ کائنات اور ان کا خاندان کراچی بھاگ آیا، جہاں ان کے بھائی کو قتل کیا گیا اور خود ان پر بھی دو مرتبہ حملہ ہوا، ایک مرتبہ گھر پر اور ایک بار سٹی کورٹ میں۔ عدالت نے ملزم کو ‘معصوم’ قرار دیا کہ اس کے خلاف ریکارڈ پر کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔ اس مقدمے میں چاروں ملزمان کو بری کیا گیا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے زبردست احتجاج کے بعد سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، جس کی سماعت شروع ہونے میں ہی دو سال لگ گئے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس مقدمے نے بھی بین الاقوامی سطح پر بہت توجہ حاصل کی۔
جواب دیں