سزائیں سخت، وفاقی کابینہ نے ریپ کے خلاف قوانین کی منظوری دے دی

ملک میں ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے وفاقی کابینہ نے دو اینٹی-ریپ قوانین کی منظوری دے دی ہے کہ جن میں ریپ کی تعریف اور اس کے مرتکب مجرموں کو کیمیائی طور پر نامرد بنانے اور پھانسی دینے کی سزا بھی شامل ہے، البتہ یہ پھانسی سرِ عام نہیں ہوگی۔

حکومت نے اینٹی-ریپ (تفتیش و جانچ) آرڈیننس 2020ء اور پاکستان پینل کوڈ (ترمیمی) آرڈیننس 2020ء کو ایک بڑا فیصلہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ملک کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ "خواجہ سرا” اور "گینگ ریپ” کو شامل کر کے ریپ کی تعریف میں تبدیلی کی گئی ہے۔ مجوزہ قانون ڈاکٹروں کی جانب سے متنازع "ٹو فِنگر” ٹیسٹ کرنے پر بھی پابندی لگاتا ہے۔

کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ "وفاقی کابینہ نے اینٹی-ریپ قوانین کی منظوری دے دی ہے، جن میں ریپ کی بنیادی تعریف تبدیل کی گئی ہے اور گینگ ریپ اور زیادتی کے مرتکب افراد کو پھانسی دینے جیسی سخت سزائیں تجویز کرتے ہیں۔” انہوں نے کہا کہ ان قوانین کو ہفتے بھر میں حتمی صورت دے دی جائے گی۔

شبلی فراز نے کہا کہ سندھ میں ماں اور بیٹی کے ساتھ ریپ کے اندوہناک واقعے کا نوٹس لینے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ملزمان پر فوری مقدمے کے لیے وفاقی وزیر فروغ نسیم کو جامع آرڈیننس تیار کرنے کی ہدایت کی تھی کہ جس میں ریپ کی جامع تعریف، نئے جرائم اور ثابت شدہ زیادتی کے مجرموں کو سخت سزائیں دینا شامل ہو۔انہوں نے کہا کہ یہ آرڈیننس بہت اہمیت کا حامل ہے کہ جس میں زیادتی کے مرتکب مجرموں کے خلاف تادیبی کارروائی شامل ہے، اسے مزید بہتر کے لیے محکمہ قانون کو بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس سے ملک میں ریپ کے واقعات میں واضح کمی آئے گی کیونکہ یہ قوانین معاشرے میں اس جرم کے خلاف رکاوٹ کھڑی کر رہے ہیں۔

وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ "اب ایک کابینہ کمیٹی ان قوانین کو حتمی صورت دے گی اور انہیں اگلے چند دنوں میں عملاً لاگو کر دیا جائے گا۔ اس میں ریپ کی جامع تعریف، خصوصی عدالتوں کا قیام، اینٹی-ریپ کرائسس سیل، شکار خواتین اور گواہوں کے تحفظ اور ٹو فنگر ٹیسٹ پر پابندی شامل ہیں۔”

وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری ان قوانین کی منظوری کو حکومت کی تاریخی کامیابی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قوانین عادی مجرموں کو کیمیائی طور پر نامرد بنانے کی اجازت بھی دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم عمران خان اس سزا کی جانب اشارہ کر چکے تھے، جب انہوں نے کہا تھا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں ریپ کے عادی مجرموں کو ایسی سزائیں دی جاتی ہیں۔

کابینہ اجلاس میں کچھ وزراء ریپ کے مرتکب کو سرعام پھانسی دینے کے حق میں تھے، لیکن کچھ نے اس کی مخالفت کی۔ وزیر مذہبی امور نور الحق قادری کا کہنا تھا کہ ریپ کے مجرم کو سرعام پھانسی دی جانی چاہیے جبکہ وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ سرعام پھانسی دینا "غیر اسلامی” اور "غیر آئینی” ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں عورتوں کو گھریلو تشدد، ریپ، نام نہاد غیرت کے نام پر قتل، تیزاب پھینکنے اور جبری شادی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے کام کرنے والے اداروں کے خیال میں ہر سال 1 ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ 50 لاکھ پرائمری اسکول کی عمر کے بچے تعلیم حاصل نہیں کرتے کہ جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ اس کی وجہ اسکولوں کی کمی کے ساتھ ساتھ بچپن کی شادی اور صنفی امتیاز بھی ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ چند مہینوں میں حقوقِ نسواں کے حوالے سے کئی اہم اصلاحات کی گئی ہیں، جیسا کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے اور تیزاب پھینکنے کے جرم میں ملوث افراد کو خاندان کی جانب سے معاف کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانونی سقم کا خاتمہ کیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے